یکساں اور معیاری تعلیم کے لئے نئے نصابِ تعلیم میں بہتری کی اشد ضرورت ہے ، ادارہ برائے سماجی انصاف و ورکنگ گروپ برائے شراکتی تعلیم
لاہور (ایجوکیشن رپورٹر )ادارہ برائے سماجی انصاف (سی ایس جے) اور ورکنگ گروپ برائے شراکتی تعلیم (ڈبلیو جی آئی اے) نے مطالبہ کیا ہے کہ نصابِ تعلیم میں مذہبی مواد شامل کرنے کے فیصلے سے متعلق ماہرین کی آراءکو اہمیت دی جائے، اور مزید برآں مذہبی مواد کے طلباء، اساتذہ اور نظام تعلیم پر اثرات کا بھی جائزہ لیا جائے. سی ایس جے اور ورکنگ گروپ کی جانب سے، چھٹی سے آٹھویں جماعت کے لئے، گزشتہ ہفتے، جاری کردہ حتمی نصابِ تعلیم کی کتب کا تفصیلی جائزہ لیا گیا. انہوں نے مشاہدہ کیا کہ نظرثانی شدہ نصاب میں زیادہ تر وہ تبدیلیاں شامل نہیں جو، چھٹی سے آٹھویں جماعت کے، انگریزی، اردو، جغرافیہ اور تاریخ کے مضامین کے لئے، قومی نصاب تعلیم کمیٹی کو تجویز کی گئی تھیں ۔دونوں تنظیموں کی طرف سے منعقدہ ایک سیمینار، بعنوان “سکولوں کا نصاب کیسے تیار ہو رہا ہے” میں نصاب تعلیم میں موجود خامیوں اور آئینی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا۔ ادارہ برائے سماجی انصاف کے ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے کہا کہ حکومت پنجاب کرونا وبا اور دیگر عوامل کی وجہ سے ہوئے تعلیمی نقصانات کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے، اور سکولوں میں سائنس، ریاضی اور سماجی علوم کی تعلیم کا دائرہ کم ہو رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت، آئین پاکستان کے آرٹیکل 20، (1)22، اور 25اے، کو نصاب تعلیم کی تیاری کے لئے رہنما اصول بنائے۔ انہوں نے مزید مطالبہ کیا کہ اقلیتی طلباءکو انکے اپنے مذہب کی تعلیم دینے کے لئے اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں، جیسا کہ یکساں قومی نصاب تعلیم میں وعدہ کیا گیا ہے۔
محقق، زیبا ہاشمی، نے مشاہدہ کیا کہ انگریزی نصابی کتابوں میں غیر جانبدار موضوعات مثلاً ؛ رواداری اور انصاف پسندی مذہبی اور اسلامی اصولوں اور نظریات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے طلباءکو الگ تھلگ ہونے کا احساس ہوتا ہے۔حتمی بنیادی نصاب دستاویز کے مطابق، یکساں نصاب تعلیم کا فریم ورک چار بڑے شعبوں پر مبنی ہے۔ شہری اور شہریت کی اقدار جو مواد سے ملتی ہیں، مذاہب اور ثقافتوں کے تنوع کی عکاسی، صنفی نمائندگی اور نقطہ نظر کی مطابقت اور معقولیت ہر مضمون میں مشقوں کا ایک سیٹ ہوتا ہے جو کہ مرکزی فریم ورک پر مبنی ہوتا ہے لیکن اس مواد نے تعلیمی اداروں اور پبلشرز کے خدشات کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے کیونکہ نصاب مشکل ہے۔
مشہور محقق اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر اے ایچ نیئر نے کہا “انتہائی افسوسناک امر ہے کہ حکومت پنجاب رٹا لگانے کو تقویت دینے اور طلباء پر مذہبیت مسلط کرنے پر تلی ہوئی ہے. اس سے طلبا کو اپنی تخلیقی تعلیم کو تلاش کرنے اور چمکانے میں مدد نہیں ملے گی بلکہ کلاس میں عدم مساوات اور امتیاز کی فضا پیدا ہوگی”
119