353

تربیت ایک گمشدہ حقیقت

قاضی نامہ: قاضی احسان اُللہ
آسان الفاظ میں تربیت کیا ہے، بچوں کو اچھی بات بتانا، اُس کو کرنے کی ترغیب دینا اور کر لینے کی صورت میں حوصلہ افزائی کرنا جبکہ بُرے کاموں کے بارے میں بتانا، اُس سے باز رہنے کی تلقین کرنا اور باز نا آنے کی صورت میں حوصلہ شکنی کرنا اور سرزنش کرنا تا کہ دوبارہ نا کرے.،پہلے یہ کام والد ین اور اساتذہ کی اولین ترجیح ہوا کرتے تھے جبکہ اب یہ ایک گمشدہ حقیقت بن کے رہ گئی ہے،جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارے گھر ایک رسالہ آتا تھا جس کا نام تعلیم و تربیت تھا.اِس میں مذہبی، ثقافتی اور سماجی موضوعات پر مبنی سبق آموز کہانیاں دی گئی ہوتی تھیں اور اِس کے علاوہ ہر اخبار اور رسالہ میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے جگہ مختص تھی پھر وقت گزرتا چلا گیا اور ان کی جگہ اشتہارات نے لے لی،پرانے وقتوں میں دادیاں اور نانیاں بچوں کو پاس بیٹھا کر کہانیاں سناتی تھیں جو کافی سبق آموز ہوا کرتی تھیں ،لیکن اب ان کی جگہ gadgets نے لے لی اور بچے اُن کے ساتھ وقت گزار کے زیادہ محظوظ ہوتے ہیں ۔والدین روز مرہ کے معمولات میں کچھ ایسی باتوں کو شامل کرتے تھے جو کہ بچے کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتی تھیں اور دن کا کچھ حصہ وہ بچوں کے لیے مختص کرتے تھے مگر آج ان سب کی جگہ ٹی وی، ڈرامہ اور دیگر پروگرامز نے لے لی۔پرانے وقت میں ہمسائے، رشتہ دار بھی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے تھے اور بچوں کو اچھائی کی تلقین اور برائی سے روکتے تھے پر آج کے دور میں کوئی کسی کے بچے کو کچھ کہہ کر جاتا کہاں ہے اور اِس طرح تربیت کا یہ دروازہ بھی بند کر دیا گیا۔
آہستہ آہستہ ہم اپنی ذمہ داریاں دوسروں پہ ڈالنا شروع ہو گئے اور اِسی میں تربیت کہیں گم ہو گئی.اور آج ہم وجہ ڈھونڈ رہے ہیں کہ معاشرے میں برائی کیوں بڑھتی جا رہی ہے، بچوں میں ادب کیوں ختم ہو گیا ہے، بچوں میں تہذیب کیوں ختم ہو گئی ہے. اور اس کے حل کی تلاش میں ہم دوسروں کے در کھٹکھٹا رہے ہیں۔یہ سب باتیں تربیت کا حصہ ہوا کرتی تھیں، یہ کسی نصاب، کسی امتحان یا کسی مقابلے کا حصہ نہیں تھیں مگر یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ باتیں، وہ کہانیاں، وہ واقعات ہمشہ بچوں کو یاد رہ جاتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے لاہور میں ایک ٹریننگ میں جانے کا اتفاق ہوا، 60 کے قریب گورنمنٹ اور پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ موجود تھے جن میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی۔ تو میں وہاں کچھ دیر کے لیے رُکا تو اس دوران وہاں بچیوں کی تعلیم کے لیے درپیش مسائل کی بات ہو رہی تھی، وہاں موجود اساتذہ نے کہا کے ایک سب سے بڑا مسئلہ بچیوں کوہراساں کرنے کا ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنی بچیوں کو سکول نہیں بھیجتے۔ تو میں نے ٹرینر کی اجازت سے کچھ وقت لیا اور ان سے ایک سوال پوچھا کہ بچیوں کو کون ہراساں کرتا ہے؟ کچھ دیر خاموش رہے اور اصرار کرنے پر کہا مرد۔ تو میں نے کہا کے یہ مرد ہم میں سے ہی کسی کا بیٹا، کسی کا بھائی اور کسی کا باپ ہو گا تو انہوں نے کہا کے جی بالکل، تو پھر مسئلہ کہاں ہے تو سب بولے تربیت میں۔ تو میں نے کہا کہ کیا ہم میں سے کسی نے اپنے بیٹوں کو سمجھایا کہ جب باہر نکلنا تو نظر کو جھُکا کے رکھنا، اپنی عزت اور دوسروں کی عزت کا خیال رکھنا۔ اور غلطی کی صورت میں سرزنش کریں، بجائے اس کے کہ یہ کہہ کر چھوڑدیں کے کوئی بات نہیں لڑکا ہے خیر ہے۔ شاید آج کے دور میں یہ سب باتیں ناپید ہو گئی ہیں۔ ہم حاکم وقت سے سخت سزاؤں کی اپیل تو کرتے ہیں مگر اپنے گھروں کی اصلاح نہیں کرتے۔ تو وہاں موجود اساتذہ نے اتفاق بھی کیا اور کہا کے ہم لڑکیوں کو تو سمجھاتے ہیں مگر لڑکوں کو اس طرح کبھی نہیں سمجھایا جاتا۔
پہلے اساتذہ اپنے اعمال اور کردار سے اپنے بچوں اور طلباء کی کردار سازی کرتے تھے مگر اب سکول میں نمبر کی دوڑ شروع ہو گئی جس میں ہم کردار سازی یعنی تربیت کو بالکل بھول بیٹھے ہیں۔ جب تعلیم و تربیت پر زور تھا تو بچے با ادب، با کردار، با شعور اور با صلاحیت تھے اور جب صرف تعلیم رہ گئی تو بچے ان تمام خصوصیات سے خالی ہو گئے۔ تربیت کی کوئی کتاب نہیں ہو سکتی مگر یہ ہر کتاب کا حصہ ہو سکتی ہے، اس کی کوئی علیحدہ کلاس نہیں ہو سکتی مگر ہر کلاس کا حصہ ہو سکتی ہے، اس کے لیے کوئی خاص عمل نہیں ہو سکتا مگر ہر عمل کا حصہ ہو سکتی ہے۔ تو میری آپ سب سے گزارش ہے کہ خدارا تربیت پر زور دیں، والدین اپنے بچوں کے لیے وقت نکالیں، اساتذہ اپنی ہر کلاس کا حصہ بنائیں اور سکول بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ دیں۔ پھر دیکھیں کہ معاشرے میں کیسے مثبت تبدیلی آتی ہے۔ مثبت معاشرہ ہی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ ہمیں کوشش کی ضرورت ہے تا کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اچھامعاشرہ دے سکیں اور کچھ بھی نا ممکن نہیں اگر انسان تہیہ کرلے۔