الیکٹرانک اسکرینیں بچوں کی صحت کے لئے نقصان دہ
والدین بچوں کو ورزش اور دیگر صحت مندانہ عادات کی طرف راغب کریں۔
ایک تازہ ترین رپورٹ میں عالمی ادارہ صحت نے بتایا ہے کہ مطابق بارہ ماہ سے کم عمر بچوں کو الیکٹرانک اسکرینوں سے دور رکھنا چاہیے۔ساتھ ہی اس بات پر زور بھی دیا گیا ہےکہ والدین بچوں کو ورزش اور دیگر صحت مندانہ عادات کی طرف راغب کریں۔اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے صحت کے مطابق،’’ایک سال سے کم عمر بچوں کے لیے الیکٹرانک اسکرینز کا استعمال مکمل ممنوع ہے۔ جبکہ دو سے چار سال کے بچوں کو بہلانے کے لیے موبائل فون یا ٹیبلٹ دیا جا سکتا ہے مگر صرف ایک گھنٹے کے لیے، اس سے زیادہ استعمال ان کے لیے غیر صحت بخش ہوگا۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بچوں کی بہتر نشونما کے لیے مکمل نیند اور ورزش سے متعلق بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ ہدایات میں مزید یہ بتایا گیا ہے،’’ ایک سال سے کم عمر بچوں کو پیٹ کے بل لیٹنے کے لیے زمین پر چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ سرگرمی ایک گھنٹے تک جاری رکھنی چاہیے۔اور تمام اسکرینز کو بچوں سے دور رکھنا چاہیے۔‘‘اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے صحت نے مزید یہ بتایا، ’’ دو سے چار سال کے عمر بچوں میں مختلف قسم کی جسمانی سرگرمیوں کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ ان سرگرمیوں کو دن میں متعدد بار دہرائیں۔جب کہ اسکرین ٹائم کو 60 منٹ تک محدود رکھیں۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں کے لیے جسمانی طور پر فعال یعنی تندرست اور توانا رہنا اور نیند کی کافی مقدار حاصل کرنا بے حد ضروری ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہی اچھی عادات بچوں میں پروان چڑھتی ہیں اور پھر بلوغت اورجوانی سے لےکر ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں۔
ڈبلیوایچ او کی ہدایات کے مطابق،’’صحت مندانہ جسمانی سرگرمیاں، خوشگوار رویے اور پرسکون نیند یہ تمام تر عادات کم عمری سے ڈالی جاتی ہیں۔ والدین بچوں پر بچپن میں ہی توجہ دینا شروع کردیں تو بچے وہی عادات زندگی بھر ساتھ رکھتے ہیں۔ بچوں کو بہلانے کے لیے کمپیوٹر گیمز، ویڈیو اور ٹیلی وژن میں مصروف رکھنا سراسر غلط ہے۔‘‘ڈبلیو ایچ او کے مطابق جسمانی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینا بچوں کی صحت کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے۔اور ان میں بیٹھے رہنے کی عادت پڑ جاتی ہے جو آگے جا کر موٹاپے، بلڈ پریشر، ذیابیطس اور مختلف اقسام کے کینسرز کی وجہ بنتی ہے۔
2017 ء میں شائع کی گئی ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق،’’موٹاپے کے شکار بچوں کی تعداد دس گنا بڑھ گئی ہے۔ رپورٹ میں مزیدیہ بتایا گیا کہ یہ اضافہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں تیزی سے بڑھ رہا ہے،جس میں ایشیا سر فہرست ہے۔‘‘
337