348

ملک میں تبدیلی لانے کے لئے معاشی ترقی بہت ضروری ہے،،صدرفرینڈز آف اکنامک اینڈ بزنس ریفارمز ،کاشف انور


انٹر ویو: ضمیر آفاقی
عکاسی :تنویر احمد

ملک میں تبدیلی لانے کے لئے معاشی ترقی بہت ضروری ہے اور معاشی ترقی میں صنعتوں کا کردار بہت اہم ہے ،صدرفرینڈز آف اکنامک اینڈ بزنس ریفارمز ،کاشف انور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشی ترقی کے لئے معیشت سے متعلق ہر شعبہ میں بہتر ی لانا ہوگی ، ہماری معیشت کا انحصار مختلف شعبوں پر ہے اس لئے معاشی ترقی کے لئے ہر شعبہ کے مسائل کو سمجھنا اور پھر ان کے حل کے لئے اقدامات کرنا ضروری ہے ، نئی حکومت کی مخالفت کرنے کے بجائے اسے خوش آمدید کہا جائے اور اس کی مدد کی جاے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو ٹیکس نیٹ میں آتا ہے اس کا آڈٹ ہوتا ہے اس کو سٹیٹمنٹ اور ریٹرن فائل کرنی پڑتی ہے اس کو جرمانے دینا پڑتے ہیں ۔ تمام قوانین کا اطلاق اس پر ہوتا ہے ۔جب عوام کو اتنا کچھ کرنا پڑتا ہے اور اس کے عوض اسے کوئی فائدہ نہیں ملتا اور اسے ٹیکس چور بھی کہا جاتا ہے تو کوئی کیوں ٹیکس نیٹ کے اندر آئے گا؟
۔۔۔۔۔۔
قانون انسانوں کے فائدے کے لئے بنائے جاتے ہیں ٹیکس گزار کی سہولت کے لئےاور اسے قانون میں جکڑنے کے لئے نہیں ،قوانین بناتے وقت سٹیک ہولڈر کو ساتھ بٹھائیں نہ کہ قانون بنا کر سٹیک ہولڈر کو بتایا جائے کہ یہ قانون بن چکا ہے ون ونڈوآپریشن حقیقت میں ہونا چاہیے۔ بہت سارے اداروں کو جواب دہ نہیں ہونا چاہیے۔

صدرفرینڈز آف اکنامک اینڈ بزنس ریفارمز (ایف ای بی آر) اور لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق نائب صدر کاشف انور لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر شیخ محمد آصف کے صاحبزادے ہیں، لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی کاشف انور نے صنعتی و تجارتی تنظیموں کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے جس کے بڑے بہترین نتائج برآمد ہوئے۔ انہوں نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی کارکردگی بہتر کرنے ،اسے ممبران کی امنگوں کے مطابق ڈھالنے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے مزید بہتر بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے۔ کاشف انور LCCI کی کنوینر سٹینڈنگ کمیٹی برائے اینٹی فیک ، انسداد جعلسازی، اینٹی سمگلنگ ، کنوینر سٹینڈنگ کمیٹی برائے ٹریفک پولیس لائزن، کنوینر لائزن اکانومی ریفارم کے طور پر بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔انہوںنے دو ہزار بارہ تیرہ میں لاہور چیمبر کا لیکشن لڑا جس میں کامیاب ہو کر 2014 میں نائب صدر رہے ان کا ماننا ہے انہوں نے جو کچھ بھی سیکھا ہے اور جو عزت ملی ہے وہ لاہور چیمبر ہی کی بدولت ہے ۔
”سکول لائف“ نے ملکی موجودہ معاشی صورت حال کے حوالے سے ان کے آفس میں بات چیت کی جس میں انہوں نے کہا ہے کہ صنعتیں چلیں گی تو نئی منتخب حکومت بھی چلے گی ، اگر صنعتی پہیہ نہ گھوم سکا تو پھر عوام کے مسائل کم نہیں ہوں گے ، ملک میں تبدیلی لانے کے لئے معاشی ترقی بہت ضروری ہے اور معاشی ترقی میں صنعتوں کا کردار بہت اہم ہے ،اگر نئی منتخب حکومت نے صنعتی ترقی کے لئے ٹھوس لائحہ عمل مرتب نہ کیا تو پھر اس کے لئے بہت سے معاشی مسائل پیدا ہوجائیں گی ، انہوں نے کہاکہ ڈالر کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے اور اب اس کی قیمت میں مزید اضافہ ہوا تو معاشی مسائل مزید سنگین ہوں گے ، روپے کی قدر کو مزید گر نے نہ دیا جائے ، ڈالر کی قیمت میں اضافہ سے ہر طرف مہنگائی بڑھ رہی ہے ، عوام جس جماعت کو بھی منتخب کریں وہ سب سے پہلے معاشی ترقی کے لئے لائحہ عمل مرتب کرے ،معاشی صورت حال بہتر ہونے سے ہی نئی منتخب حکومت پر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔ کاشف انور سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
کاشف انورنے کہا ہے کہ معاشی ترقی کے لئے معیشت سے متعلق ہر شعبہ میں بہتر ی لانا ہوگی ، ہماری معیشت کا انحصار مختلف شعبوں پر ہے اس لئے معاشی ترقی کے لئے ہر شعبہ کے مسائل کو سمجھنا اور پھر ان کے حل کے لئے اقدامات کرنا ضروری ہے ، نئی حکومت کی مخالفت کرنے کے بجائے اسے خوش آمدید کہا جائے ،ہم پاکستانی ہیں جس جماعت کو بھی عوام منتخب کریں اسے کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے ، تعمیراتی صنعت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ، تعمیرات کا شعبہ فعال ہونے سے بہت سے دیگر شعبے بھی فعال ہوجاتے ہیں ،تعمیرات بڑی صنعت ہے اس لئے اس صنعت کے مسائل حل کرنے کے لئے جامع حکمت عملی مرتب کی جائے لیکن یہ تعمیرات زرعی اراضی پر نہ کی جائیں ، انہوں نے کہاکہ کسان کے مسائل حل کئے جائیں ، کسان کو سہولیات فراہم کئے بغیر زرعی ترقی نہیں ہوگی ، زرعی اجناس کوموسمیاتی تبدیلیوں سے محفوظ بنایا جائے ، اسی طرح لائیو سٹاک کی بہتری کے لئے عصری تقاضوں کے مطابق اقدامات کئے ہیں، ہر شعبہ کے مسائل الگ ہیں ، معاشی پالیسی بہتر بنانے کے لئے ہر شعبہ کی بہتری کے لئے اقدامات کئے جائیں ، معاشی ترقی کے لئے روپے کا مستحکم رہنا بہت ضروری ہے۔
کاشف انور سے پوچھا گیا کہ اس وقت جو ہماری معاشی صورت حال ہے اس کے بارے میں روشنی ڈالیں اور ساتھ ہی یہ بتائیں کہ حکومت ہر روز یہ کہتی کہ پاکستان میں کوئی ٹیکس نہیں دیتا بلکہ اس ضمن میں بڑے بڑے اشتہار بھی جاری کئے گئے ہیں کیا س طرح لوگ ٹیکس دینے کی جانب راغب ہو پائیں گے؟
جس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں اس مفروضے کے ہی خلاف ہوں کہ پاکستان میں لوگ ٹیکس نہیں دے رہے ۔ پاکستان بائیس کروڑ افراد کا ملک ہے اور یہاں ہر فرد خواہ وہ بچہ ہے بوڑھا ہے مزدور ہے سب کے سب ٹیکس دیتے ہیں ہمیں فائلر اور ٹیکس پئیر کے درمیاں تھوڑا فرق رکھنا چاہیے مثلا عام ٹیکس پئیر جو کچھ خریدتا ہے اس پر ٹیکس ادا کرتا ہے۔ہاں ہمارے ہاں ریٹرن فائل کرنے کا رجحان کم ہے اب جو قانون آگیا ہے اس کے مطابق ہر شخص کو ریٹرن فائل کرنی ہے لیکن کوئی بھی تبدیلی رات ہی رات نہیں آتی اس کے لئے آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لوگوں کو اس کے لئے قائل کرنا پڑتا ہے اس کی ڈیپارٹمنٹ سے زیادہ ذمہ داری چیمبر، فیڈریشن اور ایسوسی ایشنز کی ہے کہ وہ اپنے لوگوں اور ممبر کی راہنمائی کریں کہ ٹیکس ریٹرن فائل کرنی ہے اس میں ایف بی آر ، صوبائی ریونیو اتھارٹی اور پی آر اے کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ انہیں ٹیکس نیٹ کے میں آنے کا فائدہ کیا ہوگا ۔جب تک آپ لوگوں کو اس بات پر قائل نہیں کریں گے لوگ ٹیکس نیٹ کے اندر نہیں آئیں گے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹیکس نیٹ کے اندر آگئے تو ہمیں نقصانات ضرور ہیں آپ کا آڈٹ ہوتا ہے آپ کو سٹیٹمنٹ اور ریٹرن فائل کرنی پڑتی ہے آپ کو جرمانے دینے پڑتے ہےں۔ جب عوام کو اتنا کچھ کرنا پڑتا ہے اور اس کے عوض اسے کچھ نہیں ملتا یا اسے کوئی فائدہ نہیں ملتا اور اسے ٹیکس چور بھی کہا جاتا ہے تو کوئی کیوں ٹیکس نیٹ کے اندر آئے گا؟جب تک ہم انہیں فوائد نہیں گنوائیں گے فائلر اور نان فائلر کے درمیان فرق واضع نہیں کریںگے لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں آئیں گے۔
مشکلات کہاں ہےں اس بارے کچھ فرمائیں۔کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون یہ کہتا کہ کہ اگر آپ ریٹرن، سٹیٹمنٹ وغیری جمع نہیں کرائیں گے تو آپ کو جرمانہ ہو گا، آ پ بلیک لسٹ ہو جائیں گے آپکا نام ایکٹو ٹیکس پئیر کی لسٹ میں نہیں آئے گا یہ ہی بات جسے حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ اگر آپ جرمانے سزائیں اور خوف پیدا کریں گے تو لوگ ٹیکس نیٹ میں آنے سے کترائیں گے۔
کیا ٹیکس کولیکشن کے ادارئے یا افراد لوگوں کے راستے میں رکاوٹ کسی بھی طریقے سے ڈالتے ہیں ؟کا جواب دیتے ہوئے کاشف انور نے کہا کہ میں یہ تو نہیں کہوں گا وہ رکاوٹ ڈالتے ہیں لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ کرپشن بذات خود کوئی چیز نہیں ہوتی جب آپ بے جا اختیارت کو قانونی حثیت دے دیتے ہیں تو وہاں سے کرپشن شروع ہو جاتی ہے یعنی آپ کسی فرد کو بے جا اختیارات دیتے ہیں اور پھراسے قانونی تحفظ بھی دیں تو وہ فرد ان بے جا اختیارات کا استعمال کرتا ہے، جہاں سے کرپشن کے راستے کھلتے ہیں سارے اختیارت ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہیں۔ کاروباری طبقہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کا کسٹمر ہے جب آپ اپنے کسٹمر کو کوئی تحفظ نہیں دیں گے انہیں سہولیات فراہم نہیں کریں گی تو یہ کیسے ان کے پاس جائیں گے۔
پھر ٹیکس دینے والے کو اس بات کا بھی تو پتہ چلنا چاہیے کہ اس کا دیا ہوا ٹیکس عوام کی فلاح و بہبود کی کس مد میں خرچ ہو رہا ہے ،صحت، تعلیم، صاف پانی اور انسانی بنیادی ضرورتیں ہیں جو عوام کو ملنی چاہےں تاکہ لوگوں کو پتہ ہو کہ وہ جو ٹیکس دیتے ہیں اس کا انہیں کیا فائدہ ہے پھر ہی لوگ خوش دلی سے ٹیکس ادا کریں گے۔
کاروباری حالات کے حوالے سے موجودیہ اور گذشتہ حکومتوں میں موازنہ کرنا ہو تو آپ کیا کہیں گے؟ کا جواب دیتے ہوئے کاشف انور نے کہا کہ اس بات میں تو کوئی دوسری رائے نہیں کہ جو کاروباری فضا اس وقت ہے وہ کوئی سازگار نہیں ہے اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں ڈالر کی قیمت کا بڑھنا بجلی گیس پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور مہنگائی میں اضافہ وغیرہ پھر آپ کی ایکسپورٹ میں کمی آچکی ہے بلکہ جو راءمٹیریل آپ منگواتے ہیں اس پر ڈیوٹی میں بے پناہ اضافہ ہونے سے لوگوں کے چلتے ہوئے کاروبار رک چکے ہیں میں سمجھتا ہوں اس کی ذمہ دار صرف موجودہ حکومت ہی نہیں ہے بلکہ پچھلی حکومتیں بھی ذمہ دار ہیں ۔
آپ کے ملک اکانومی تب چلتی ہے جب آپ کی صنعت چلتی ہے،جب آپ کا ڈالر کے مقابلے میں روپیہ اتناسستا نہیں تھا تب آپ ایکسپورٹ بھی کر پارہے اور مسابقت کی دوڑ میں نہیں تھے اب تو ڈالر کی قدر کہیں رک ہی نہیں رہی انٹر نیشنل مارکیٹ میں تو آ پ کا مقابلہ ہی کوئی نہیں ، ہونا یہ چاہیے کہ آپ کی لوکل صنعت ترقی کرے اسے سہولتیں دیں بجلی گیس سستی کریں ان پر بے جا دباو نہ ڈالیں جو سہولتیں آپ بیرونی سرمایہ کار کو دیتے ہیں وہ اپنے سرمایہ کار کو دیں تو شائد کچھ بہتری کے امکان پیدا ہو سکتے ہیں۔
ان سے پوچھا گیا کہ وہ کون سی رکاوٹ ہے جسے دور کر دیا جاے تو صنعتی پہیہ چلنا شروع ہو جائے گا ؟جس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا سمگلنگ کو روکنا ہو گا کیونکہ سمگلنگ ہماری صنعت کی تباہی میں زہر قاتل ہے اور دوسری رکاوٹ راءمٹیریل پر ڈیوٹی ہے جس کے خاتمے کے بغیر مقامی صنعتی ترقی ایک خوب ہی ہو سکتا ہے آپ جو پالیسیاں بناتے ہیں اس میں لوکل مینوفیکچر کو شامل کریں باہمی مشاورت سے جو پالسیاں بنیں گی وہ دیر پا ،پائدار اور ملکی صنعت کے لئے فائدہ مند ہوں گی۔
ملکی صنعت میںبہتری کیسے آسکتی ہے اور کاروباری حرارکی کیسے بڑھ سکتی ہے ؟کا جواب دیتے ہوئے کاشف انور نے کہا کہ ملکی سرمایہ کارکو سرماے کا تحفظ فراہم کیا جائے، اس کے لئے ساز گار ماحول پیدا کیا جائے ادارے اس کو خواہ مخواہ تنگ نہ کریں، پالیسیوں کو کاروبار دوست بنایا جاے ۔ اگر کوئی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے یا کر رہا ہے تو اس کے لئے ایسے حالات پیدا نہ کئے جائیں کہ وہ سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ اس نے ملک میںسرمایہ کاری کر کے کوئی بہت بڑی غلطی کر لی ہے جب تک حکومت تاجر دوست اقدامات نہیں اٹھاتی میں سمجھتا ہوں کاروباری طبقہ ڈر اور خوف کے مارے سرمایہ کاری نہیں کرے گا اپنے سرمایہ کار کو عزت دیں تاکہ وہ یہاں سرمایہ کاری کرے، صنعتیں چلیں گی تو روزگار میں اضافہ ہو گا اگر صنعتیں ہی نہیں چلیں گی تو پھر معاشرے میں کرائم میں اضافہ ہوگا ہے، لا اینڈ آرڈر کی صورت حال خراب ہوتی ہے ۔ ڈاکومینٹیشن ضرور کریں لیکن تدریجاً آہستہ آہستہ اورقوانین ایسے بنائیں جس میں اختیارات صرف اداروں کے پاس ہی نہ ہوں بلکہ تاجر برادری کے حق میں بھی کوئی بات ہو۔آپ جو بھی قوانیں بناتے ہیں انہیں بناتے وقت آپ دوسروں کو چور سمجھ کر قانون سازی کرتے ہیں جب ایسا ہو گا تو سرمایہ کار دوست ماحول کیسے پیدا ہو گا قانون سازی ایسی ہونی چاہیے جو دوسروں کے لئے آسانی پیدا کرے انہیں سہولیات فراہم کرے تو اس کا فائدہ ہو گا قانون انسانوں کے فائدے کے لئے بنائے جاتے ہیں انسان کو قانون میں جکڑنے کے لئے نہیں قوانین بناتے وقت سٹیک ہولڈر کو ساتھ بٹھائیں نہ کہ قانون بنا کر سٹیک ہولڈر کو بتایا جائے کہ ٹیکس گزار کی سہولت کے لئے یہ قانون بنا دیا ہے ۔ ون ونڈوآپریشن حقیقت میں ہوناچاہیے۔ بہت سارے اداروں کو جواب دہ نہیں ہونا چاہیے لوکل انڈسٹری کو چلانا ہے تو سمگلنگ کو بند کرنے کے ساتھ بجلی ،گیس اور پٹرول کے کی قمیتوں میں کمی لانی ہو ہوگی جب تک آپ اپنے لوکل سرمایہ کار کو سہولیات فراہم نہیں کرتے لوکل انڈسٹری نہیں چلتی فارن انویسٹر یہاں کبھی نہیں آئے گا۔
آخری سوال کیا یہ حکومت یہ سب کچھ کر پائے گی؟ ا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ کوئی بھی حکومت ناکامی کا بوجھ اپنے سر نہیں لینا چاہتی اور چاہتی ہے کہ اپنی عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے پاکستان کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کی دعا کرنی چاہیے اور امید کرنی چاہیے کہ حکومت تمام مسائل کو حل کرنے میں جلد سے جلد کامیاب ہوجائے۔