280

#کوویڈ19کاسارانزلہ_تعلیم_پر_ہی_کیوں؟


#کوویڈ19کاسارانزلہ_تعلیم_پر_ہی_کیوں؟
محمد اقبال عباسی
وفاقی حکومت نے کوویڈ19کی موجودہ وبائی صورتحال کے پیش نظر ملک بھر میں تعلیمی اداروں کو 15 جولائی تک بند رکھنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے وزیراعظم کے ہمراہ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ تعلیمی بورڈز کے زیر اہتمام ہونیوالے تمام امتحانات کو بھی منسوخ کر دیا گیا ہے اور طلبہ کوپچھلے امتحانات کی بنیاد پر ہی اگلی کلاسوں میں بھیج دیاجائے گا۔یونیورسٹیوں میں داخلہ 11ویں جماعت کے نتائج پر ملے گا۔۔ یاد رہے کہ پنجاب، بلوچستان اور سندھ نے یکم جون سے تعلیمی ادارے کھولنے کی مخالفت کی ہے جبکہ خیبر پختونخوا نے حمایت کی تھی۔دوسری جانب کورونا وائرس کے مرکز چین میں 27 اپریل سے تعلیمی اداروں کو کھولنے کا آغاز کردیا گیا۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شنگھائی اور بیجنگ جیسے بڑے شہروں میں 27 اپریل کو مڈل و ہائی اسکولز سمیت یونیورسٹیوں کو کھول دیا گیا اور پہلے ہی دن طالب علموں کا رش دیکھا گیا۔رپورٹ کے مطابق شنگھائی میں مڈل اور ہائی اسکول جب کہ بیجنگ میں یونیورسٹیز کو کھول دیا گیا۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق اسپین نے رواں ماہ کے آغاز کے بعد ہی لاک ڈاون کو نرم کرنے کا عندیہ دیا تھا اور 10 دن قبل ہی وہاں پر کچھ نرمیاں لائی گئی تھیں اور اب لاک ڈاون میں مزید نرمیاں لاتے ہوئے بچوں کو باہر نکلنے کی اجازت دے دی گئی۔مزید خبر یہ بھی ہے کہ ہمسایہ ملک ایران نے بھی تمام تعلیمی ادارے کھول دیئے ہیں ۔موجودہ تحریک انصاف کی حکومت کے منشور میں تعلیم اور صحت کو اوّلین ترجیح دی گئی تھی اور وزیر اعظم پاکستان کی ابتدائی تقا ریر میں بھی جہاں غربت کا ذکر ہوتا تھا وہاں آوٹ آف سکول بچوں کا ذکر بھی بڑی شد و مد سے کیا جاتا تھا کہ ہمارے ملک میں تعلیم اور تعلیمی نظام پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ، ملک میں یکساں نظام تعلیم کا دعوی تو کل سچ ثابت ہو ہی گیا جب خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کے اصرار کے باوجود بھی سکول بند کر دیئے ہیں ۔ یاد رہے کہ گزشتہ موسم سرما کی تعطیلات کی طوالت میں بھی سردی کا بہانہ بنا کر ایک ماہ کا اضافہ کیا گیا تھا جس کا لامحا لہ اثر بچوں کے نتائج پر پڑا ۔ماہ مارچ کے وسط سے شروع ہونے والے لاک ڈاﺅن میں جہاں نجی اور حکومتی ادارے کے طلباءو طالبات متاثر ہو رہے ہیں وہاں ان کے مستقبل پہ سیاہی ملنے کا کوئی بھی موقع ہماری حکومت نہیں جانے دے رہی جس کا واضح ثبوت موجودہ امتحانات کو موخر کرنے کی بجائے ختم کر دیا گیا ہے ۔ اب وہ طلباءو طالبات جو گزشتہ سال کسی بھی وجہ سے کم گریڈ اورنمبر حاصل کر سکے تھے اور سخت محنت کر کے اس سال اچھے نمبر حاصل کرنے کے لئے پر امید تھے ، ایسے طلباءکو اب اپنی سابقہ سال کی فیصدکار کردگی کو بنیاد بنا کر پروموٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو نہ صرف ایک احمقانہ اورعاجلانہ فیصلہ ہے بلکہ سراسر ناانصافی پر مبنی ہے جس کی وجہ سے اکثر بچوں کا تعلیمی کیرئیر صرف اس وجہ سے اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا کہ وہ کسی اچھے ادارے میں داخلہ نہیں لے سکیں گے ۔ وہ طلباءجو بین الاقوامی یونیورسٹیوں اور اداروں کے امتحانی نظام کے تحت اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے تھے وہ بھی عجیب مخمصے کا شکار ہیں ۔ مثال کے طور پر کیمبرج یونیورسٹی نے طلبا کو دو راستے دیئے ہیں یا تو، سکول میں دیئے گئے سابقہ امتحانات کے مطابق نمبر گریڈ لے لیںیاپھر اکتوبر نومبر میں امتحان دے لیں۔مستقبل کے بارے میں بھی کچھ خبر نہیں کہ اکتوبر نومبر میں ہونے والے امتحانات بھی ہو پاتے ہیں یا نہیں کیونکہ انگلینڈ میں بھی پوری دنیا کی طرح یہ وبا پھیلی ہوئی ہے۔نیز اگر حالات سنبھل بھی جاتے ہیں اور مئی تک سب کچھ معجزانہ طور پہ درست ہو بھی جاتا ہے تب بھی خاص کر ایف ایس سی اور اے لیولز کے بچوں کے لیے معاملہ بہت مبہم ہو رہا ہے۔ابھی تک حکومت نے نئے سال کے داخلہ جات کے لئے بھی کوئی واضح پالیسی کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی نجی اداروں کے مالکان کو اس سلسلے میں اعتماد میں لیا جا رہا ہے ۔ حالت یہ ہے کہ پنجاب کے اکثرطلباءکو نئی جماعتوں کی کتابیں جاری نہیں کی سکیں یہاں تک کہ پنجاب ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے لاکھوں طلباءو طالبات کو کتابیں نہیں دی گئیں جو اب تک گوداموں میں پڑی ہیں اور ان کو دیمک چاٹ رہی ہے ، صرف یہ سوچ لیں کہ جب بچے کے پاس کوئی کتاب ہارڈ فارمیٹ میں نہیںہو گی تو وہ آن لائن کیا خاک تعلیم حاصل کر پائے گا ۔
جہاں حکومت تمام کاروباری اداروں کی بحالی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے وہاں تعلیمی شعبہ کے سرمایہ کاروں کو سراسر نظر انداز کر دیا گیا ہے اور ان کو اس معاشی بحران میں یکا و تنہا چھوڑ دیا گیا ہے ۔ وہ تمام تعلیمی ادارے جن کی فیس ایک ہزار روپے یا اس سے کم ہے ،ان کو سوشل میڈیا کے پراپیگنڈے کی وجہ سے والدین فیس دینے سے انکاری ہو چکے ہیں جس کی بنا پر ایسے ادارے اساتذہ اور ملازمین کی تنخواہ بروقت ادا نہیں کر پا رہے ۔ کچھ ایسی ہی صورت حال پنجاب ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے تحت چلنے والے اداروں کی ہے جو کہ سابقہ تین ماہ سے ادائیگی سے محروم ہیں جس کا لامحالہ سارا نزلہ ان اداروں میں کام کرنے والے افراد پر گر رہا ہے ، یہاں تک کہ اکثر نجی سکولوں کے اساتذہ کے گھر میں فاقوں تک نوبت پہنچ چکی ہے جس کی تمام تر ذمہ دارموجودہ حکومت کی ناقص پالیسی ہے ۔ملک کے طو ل و عرض میں پھیلے 207710پھیلے نجی سکول( جن میں دو کروڑ سے زائد طلباءتعلیم حاصل کر رہے ہیں) اس وقت نہ صرف یہ ادارے کسمپرسی کا شکار ہیں بلکہ پورے ملک کے گلی محلوں میں موجود ٹیوشن اکیڈمیوں سے منسلک تمام افراد بھی اس وقت اپنی دعاﺅں اور التجاﺅں کا محور و مرکز خدا کی ذات کو بنائے ہوئے ہیں جو موجودہ حکمرانوں کی توجہ ان کی بے روز گاری کی طرف دلائے۔
جہاں تک موجودہ صورت حال کا تعلق ہے حکومت وقفے وقفے سے تمام کاروبار زندگی کھول رہی ہے جس کا بنیادی سبب تاجر طبقے کا اتحاد ہے ۔ آپ اس وقت کسی بھی بازار میں چلے جائیں ، آپ کو زندگی معمول کے مطابق رواں دواں دکھائی دے گی اور کوئی بھی فرد یا دوکان دار حکومت کے کسی بھی SOPکی پیروی کرتا دکھائی نہیں دے گا ۔ شٹر گرا کر کاروبار کرنے والی بات تو ہم سب کو علم ہے لیکن شعبہ تعلیم کو ہی جان بوجھ کرنظر انداز کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ ایک ہفتے میں بے شک کرونا کیسز کی تعداد اور اموات میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ حکومتی اندازوں سے بہت کم ہے۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر جولائی میں کرونا کا مکمل خاتمہ نہ ہوا تو کیا تعلیمی اداروں کو مزید ایک دو ماہ بند کر دیا جائے گاکیونکہ ورلڈ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ستمبر تک کورونا وائرس کے خاتمے کی پیش گوئی کی گئی ہے ۔ اب سوچنا یہ ہے کہ جولائی کے بعد نئے تعلیمی سال کا آغاز ہو تا ہے تو اس کا اختتام کب ہو گا؟ اور کیا ایسا تو نہیں کہ موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی کورونا کا حملہ پھر شدید ہو جائے اس سلسلے میں وفاقی وزیر زرتاج گل کا بیانیہ خاصی اہمیت کا حامل ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اب کورونا وائرس ہر سال آئے گا ۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہمارے ملک میں کرونا کے پھیلاو¿ کی شدت کافی کم رہی ہے اور ایک ایسی بیماری جس میں انسان کے مرنے کا چانس صرف 2 فیصد ہے ، اس کے لئے اتنی دیر تک کاروبار زندگی کو معطل سکھنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اشرافیہ کے علاوہ بھی اس سارے جھنجٹ کی ڈوریاں کسی اور جگہ سے ہلائی جا رہی ہوں ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم دیگر شعبوں کی طرح تعلیمی شعبے کو بھی کھول کر زندگی اور ملک کو نارمل انداز میں آگے بڑھانے کا فیصلہ کریں لیکن اگر آپ نے تعلیمی شعبے کو ہر حال میں بند رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو نجی اسکولوں کی بندش سے بے روزگار ہونے والے ہزاروں اساتذہ اور تعلیمی اکیڈمیوں پر گزر اوقات کرنے والے لاکھوں بے روز گار افراد کو فوری طور پر مالی ریلیف دینے کا ٹھوس بنیادوں پر بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ کوویڈ 19جیسی بیماری سے نمٹنے کے لئے بہترین حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترا جائے ۔
٭٭٭٭٭