جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا ہارورڈ یونیورسٹی کے طلبا سے غیر روایتی خطاب
جرمن چانسلر انگیلا میرکل امریکا کی مشہور زمانہ ہارورڈ یونیورسٹی کی سالانہ گریجویشن تقریب میں بطور مہمان خصوصی ایک تاریخی خطاب کرنے جا رہی ہیں۔وفاقی جمہوریہ جرمنی کی چانسلر انگیلا میرکل تیس مئی بروز جمعرات ہارورڈ یونیورسٹی کی سالانہ گریجویشن یا جلسہ عطاءِ اسناد کے موقع پر ایک غیر روایتی تقریر کریں گی، جس کے بارے میں میرکل نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ خطاب روایتی سیاسی تقریر سے ہٹ کر ہوگا۔
جرمن چانسلر کے بقول، ’’میں طلبا کو اپنی زندگی سے حاصل کردہ اسباق سے آگاہ کروں گی‘‘۔
امریکی ریاست میسا چیوسٹس کے شہر کیمبرج میں قائم ایلیٹ یا مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہارورڈ یونیورسٹی میں ہر سال عطاءِ اسناد کی ایک شاندار تقریب کا انعقاد ہوتا ہے جس سے خطاب کے لیے دنیا کی ممتاز شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اس بار اس نوعیت کی 368 ویں تقریب کا انعقاد ہو رہا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر لاری بیکو نے جرمن چانسلر کو اس تقریب سے خطاب کے لیے مدعو کیا ہے۔ انہوں نے انگیلا میرکل کی اس تقریب میں شرکت کے بارے میں اعلان کرتے ہوئے کہا،’’میرکل ہمارے دور کی بہت زیادہ پسند کی جانے والی اور وسیع اثر و رسوخ کے حامل سیاست دانوں میں سے ایک ہیں‘‘۔ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر کے مطابق انگیلا میرکل کی قیادت نے نہ صرف جرمنی بلکہ پورے یورپ اور وسیع تر دنیا کی سیاست کو ایک نئی جہت دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لاری بیکو نے کہا،’’جرمن چانسلر میرکل ہنوز ہمارے دور کے چند بڑے چیلنجز سے نمٹنے میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں‘‘۔انگیلا میرکل نے اپنی فعال سیاسی زندگی کا آغاز 1989ء سے کیا تھا۔ اُس وقت وہ جرمنی کے اُس پُر امن انقلاب سے بہت متاثر تھیں جس کے نتیجے میں دیوار برلن کا انہدام اور جرمنی کے دوبارہ اتحاد کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں میرکل کی تقریر کے بارے میں برلن میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ کیا جرمن چانسلر کی تقریر اُن بیانات سے مماثل ہو گی، جو انہوں نے سال رواں فروری میں میونخ سکیورٹی کانفرنس کے دوران دیے تھے۔ تب میرکل نے بین الاقوامی سیاسی ڈھانچے اور معاہدوں کو ترک کرنے کی امریکی پالیسیوں کے خلاف سخت انتباہ جاری کرتے ہوئے ان کی سرزنش کی تھی۔ سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے میرکل نے کہا کہ اُن کے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین پیدا ہونے والے بہت سے مسائل دراصل دوطرفہ تعاون کے فروغ کا سبب بنے ہیں کیونکہ باہمی مسائل کا حل ان دونوں لیڈروں کو مل کر ہی نکالنا ہیں۔ میرکل نے اس امر کا اعتراف بھی کیا کہ امریکی صدر کے ساتھ بہت سے معاملات میں نزاع انگیزی رہی ہے۔ مثال کے طور پر 2017 ء میں جب ان دونوں کی ہیمبرگ میں جی ٹوئنٹی کے اجلاس کے موقع پر ملاقات ہوئی تھی تاہم آخر کار دونوں نے مشترکہ حل نکال ہی لیا تھا۔ایک مترجم کی مدد سے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے جرمن چانسلر کا کہنا تھا،’’ بحث و مباحثہ یقیناً ایک چیلنج ہوتا ہے لیکن میں اس چیلنج کو خوشی کے ساتھ قبول کرتی ہوں، میرا اپنا نظریہ ہے اور صدر ٹرمپ بھی اپنے خیالات رکھتے ہیں تاہم ہم کہیں نہ کہیں آکر ایک مشترکہ خیال پر آمادہ ہو ہی جاتے ہیں اور اگر ایسا نا ہو رہا ہو تو بھی ہمیں بات چیت اور مذاکرات کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔جرمن حکومت کے ایک ترجمان نے بتایا کہامریکی حکام نے وضاحت کی ہےکہ ٹرمپ جمعرات کو واشنگٹن میں نہیں ہوں گے۔ جس وقت میرکل ہارورڈ یونیورسٹی کے عطاءِ اسناد کے موقع پر خطاب کریں گی اُس وقت امریکی صدر کولوراڈو میں امریکی فضائی اکیڈمی کے گریجویٹز سے بات چیت کر رہے ہوں گے۔
260