انٹر ویو:ضمیر آفاقی
عکاسی تنویر احمد
پروفیسرز ،استاد ہمارے رول ماڈل ہوا کرتے تھے ،اب بچوں کے رول ماڈل تبدیل ہو چکے ہیں، ایڈیشنل آئی جی آپریشنز انعام غنی
۔۔
ہمارے زمانے میں جو سی ایس ایس کرتے تھے وہ دن رات محنت کرتے تھے یہی فارمولہ پوچھنے ہم میں اور میرا دوست اپنے ایک سنئیر کے پاس گئے جس نے سی ایس ایس میں ٹاپ کیا تھا، انہوں کہا بڑی سیدھی بات ہے جو اکیس گھنٹے پڑھے گا وہ تھرڈ آئے گا، جو بائیس گھنٹے پڑھتا ہے وہ سینکنڈ اور جو تئیس گھنٹے پڑھتا ہے وہ ٹاپ کرے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ایک استاد تھے ضیا القمر صاحب جن کا زکر پہلے آچکا ہے ہم ان سے کہتے آپ بہت اچھے استاد ہیں تو وہ کہتے نہیں میں لیکچرر ہوں پروفیسر ہوں میں آتا ہوں لیکچر دے کر چلا جاتا ہوں لیکن ا ستاد وہ ہوتا ہے جو آپ کی کریکٹر بلڈنگ کرتا ہے جو آپ کی شخصیت بناتا ہے گرومنگ کرتا، ہے اب لیکچرز کی تعداد بڑھ چکی ہے استاد کم رہ گئے ہیں۔
۔۔۔
ہمارا ایڈورڈ کالج کے پانچ ساتھیوں کا ایک گروپ ہے جوابھی بھی کسی ایک دوست کے گھر میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ کالج کے بچوں کی طرح گپیں لگاتے اور ایک دوسرے کو سونے نہیں دیتے شراتیں کرتے ہیں۔ یہ پانچ کا گروپ مختلف شعبوں سے تعلق رکھتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے والد صاحب ’ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ کسی بھی انسان کی زندگی کے دو اہم حصے ہوتے ہیں ایک ابتدائی اور دوسرا اس کے بعد والا ، ابتدائی حصہ جو تقریباً پچیس فیصد ہوتا ہے اس میں آپ محنت کریں گے تو باقی والے حصے میں عیش کریں گے، جو بچہ اس پچیس فیصد والے حصے میں عیش کرئے اور محنت نہ کرے تو وہ باقی والے حصے میں تکلیف اٹھاتا ہے‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”سکول لائف“ ہر انسان کی خوبصورت یادوں کا ایسا خزانہ اور تحفہ ہے جس میں سجے ہوئے موتی انسانی زندگی کو ہمیشہ چمکاتے رہتے ہیں اس دور کے واقعات ،دوست استائذہ اور ماحول انسان کبھی نہیں بھولتا بلکہ وہ تمام یادیں ،باتیں واقعات ، دوست اور استائذہ ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ ہفتہ روزہ ”سکول لائف“کے معروف سلسلے ”میری سکول لائف“ کے مہمان 17 ویں کامن سے تعلق رکھنے والے ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب اور ترجمان جناب انعام غنی ہیں۔آپ انتہائی ملنسار دھیمے لہجے میں آہستہ آہستہ بات کرنے والے بااخلاق انتہائی پڑھے لکھے اور کئی ممالک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے بہترین خوبیوں اور صلاحیتیوں کے حامل آفیسر ہیں آپ کے پی کے ،،اسلام آباد سمیت آیف آئی آے میں اہم ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں، جی سی یونیورسٹی سے ایم ائے پولیٹکل سائنس ،یو ایس اے سے ایل ایل ایم،یوکے سے ایل ایل ایم کیا ہے ۔ جناب انعام غنی کی سکول، کالج اور یونورسٹی لائف ،بچپن کی یادیں اور واقعات نذر قارئین ہیں۔
مالا کنڈ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے انعام غنی نے اپنی ابتدائی تعلیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایف جی سکول بٹ خیلہ سے انیس سو ستر میں میں اور میری ہمشیرہ ایک ہی کلاس میں داخل ہوئے وہاں سے ہم نے پانچویں تک تعلیم حاصل کی اس کے بعد ہمارے والد صاحب جو اکاونٹس آفیسر تھے کا تبادلہ پشاور میں ہو گیا اور ہم پشاور آگئے۔ اور یہاںکینٹ پبلک سکول پشاور سے مختلف کلاسز پڑھیں یہاں کے استائذہ بہت اچھے تھے بڑئے دلکش اور خوبصورت انداز میں دلجمعی سے پڑھاتے تھے۔’ سکول لائف ‘ کے دوستوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا کینٹ پبلک کے نام سے واٹس ایپ گروپ ہے جس میں سب دوست شامل ہیں جن میں کچھ ڈاکٹر ہیں کچھ انجینئر ز، پروفیسر اورکچھ بیرون ممالک میں ہیں، سب مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔اور اگر ہم ٹیچرز کی بات کریں تو وہ اب کافی عمر رسیدہ ہو چکے ہیں لیکن ان میں ایک انگلش کے ٹیچرز افتخار صاحب ہمارئے رول ماڈل ہیں ان کی تصویر ہم نے اپنے گروپ میں لگا رکھی ہے۔ وہ بہت شاندار انسان تھے اور بہت اچھاپڑھاتے تھے ان کی جو سب سے دلچسپ بات تھی وہ ٹی وی ڈراموں میں بھی کام کرتے تھے ۔ا س زمانے میں ایک ہی ٹی وی پاکستان ٹیلیویژن ہوا کرتا تھا جس میں وہ کام کرتے تھے۔ ہم ان سے بہت متاثر تھے ان کی شخصیت بہت زبردست تھی وہ جو سوٹ پہنتے ہم ان کی کاپی کرتے ہم ان سے بہت انسپائر تھے انہیں ایڈمائر کرتے ۔ ہمارے ایک اور استاد تھے صابری صاحب وہ بھی بڑی زبردست شخصیت کے حامل تھے اس زمانے میں سکول ٹائم میں دو نمازیں لازمی پڑھنی ہوتی تھی اور وہ ڈنڈا لے کر ہمارے پیچھے کھڑئے ہوجاتے ان کا یہ انداز بھی بڑا محبت بھرا تھا ،صابری صاحب کے اس طریقہ کار کی وجہ سے ہماری باجماعت نمازکی عادت بنی ،پشاور میں ایک مسجد ہے جیسے ابھی بھی ہم سب کینٹ پبلک کے دوست مل کر اس کا انتظام و انصرام کرتے ہیں ۔
کینٹ پبلک سکول سے نکل میں کیڈٹ کالج کوہاٹ چلا گیا ،کیڈٹ کالج کوہاٹ ہمارا فیملی کالج ہے میرے دو بڑئے بھائی وہیں سے پڑھے ہوئے تھے والد صاحب نے مجھے بھی وہیں بھیج دیا پانچ سال میں نے وہاں ،گزارئے دن رات بہت محنت کی فوجی زندگی کی طرح صبح اٹھ کر پریڈ شام کو گیمز وغیرہ، آپ نے آئی ایس پی آر کے ڈامے دیکھے ہوں گے ان ڈراموں میںجو کچھ دکھایا جاتا ہے وہی زندگی ہم نے گزاری سنئیر کے ہاتھوں مار کھاتے کھاتے سیکھتے سکھاتے ہم بڑئے ہوتے ہوے وہیں سے ایف ایس سی کیا ۔ وہاں کے کلاس فیلو ہمارے بہت دل کے قریب رہے ان کا بھی ایک گروپ ہے جن سے ہم سب مسلسل رابطے میں رہتے ہیں کیڈت کالج کوہاٹ والوں کے بارے کہا جاتا ہے۔ ’یہ محبت اور خیال رکھنے والوں کا مافیا ہے‘ ایک دوسرے کے بہت قریب رہنے والے خیال رکھنے والے غمی خوشی میں شریک ہونے والے۔ وہاں ہمیں بہت اچھے ٹیچر ملے ان میں سے آٰئی ٹی ولیم صاحب ان دنوں بیمار ہیں اللہ انہیں شفا دے بہت اچھے ٹیچر تھے ،ہاوس ماسٹر بھی تھے ہمیں انگلش پڑھاتے تھے۔ ایک ٹیچر شفیق صاحب کیمسٹری بہت زبردست پڑھاتے تھے۔ ہمارے پرنسپل مرزا خورشید انور بیگ صاحب ہمارے پہلے پرنسپل تھے۔ کمانڈر خظیب ایکس نیول آفسیر بھی زبردست ایجوکیشنسٹ تھے ،جبکہ مرزا خورشید صاحب کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ دان رات ڈیوٹی پر ہوتے لیکن تنخواہ نہیں لیتے تھے بہت سخت مزاج تھے ان کی سخت مزاجی کی ایک مثال کالج کے دو طالبعلم اس وقت کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے بیٹے تھے ویک اینڈ پر ایک دن لیٹ یعنی اتوار کو آنا تھا پیر کو آئے ان کی اس غلطی کی پاداش میں انہیں کالج سے نکال دیا گیا، میں اس وقت ان کے کمرئے میں ہی کھڑا تھا جب انہیں گورنر ہاوس سے کال آئی کی میں ان بچوں کو بھیج رہا ہوں انہیں واپس رکھ لیں، جس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک تیسرا آدمی بھی بھیج دیں جو میرا استعفیٰ بھی ساتھ لے جائے جس کے جواب میں میجر جنرل فضل حق نے کہا کہ نہیں نہیں آپ استعفیٰ نہ دیں انہیں میں کسی اور کالج بھیج دوں گا اس طرح کے وضع دار اور بااصول انسان تھے جن کے ساتھ ہم نے وقت گزارا پڑھا اور تربیت حاصل کی۔
کالج اور یونیورسٹی لائف کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جناب انعام غنی نے بتایا ایف ایس ای کے بعد میں ایڈورد کالج پشاور میں چلا گیا جہاں ڈاکٹر ٹموتھی وولمر(Dr. T. Woolmer) ہمارے پرنسپل تھے وہ برطانیہ سے آ¿ئے تھے سٹاف بھی زیادہ تر برطانیہ سے ہی آیا تھا جبکہ پاکستانی سٹاف بھی تھا۔ میں وہاں سے گریجویشن کرنے گیا تھا اور یہیں سے میں گریجویشن کی،یہاں کے تمام استاد بہت اچھے تھے سٹاف بہت اچھا تھا۔ ضیاالقمر ہمارے ایک بہت اچھے پروفیسر تھے وہ بھی ٹی وی ڈراموں میں آتے تھے بہت مشہور آدمی تھے ان کے بارے انگریز سٹاف میں مشہور تھا اور وہ کہتے تھے کہ پاکستان میں اگر کسی کی انگریزی بہت اچھی ہے تو وہ پروفیسر ضیاالقمر تھے، وہ میں انگریزی پڑھاتے تھے جو کچھ مجھے انہوں نے انیس سو پچاسی یا چھیاسی میں پڑھایا مجھے آج تک یاد ہے۔ اسے میں آج بھی لکھ سکتا ہوںاتنے شاندار طریقے سے وہ پڑھاتے تھے ان کے ساتھ بہت اچھا وقت پیار محبت کے ساتھ گزار اور ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ڈیلس جوزف ہمارے پولٹیکل سائنس کے ٹیچر تھے ۔جبکہ ایڈورڈ کالج میں بہت اچھے دوست ملے جن کا ابھی تک ساتھ ہے۔ ہمارا ایڈورڈ کالج کے پانچ ساتھیوں کا گروپ ہے جوابھی بھی اکٹھے ہوتے ہیں ایک دو مہینوں میں ہم کسی ایک دوست کے گھر میں اکٹھے ایک رات ضرورر گزارتے ہیں۔ کالج کے بچوں کی طرح گپیں لگاتے اور ایک دوسرے کو سونے نہیں دیتے شراتیں کرتے ہیں۔ یہ پانچ کا گروپ مختلف شعبوں سے تعلق رکھتا ہے ، جن میںداود ،شبیر ،جنید یامین خان شامل ہیں اس گروپ کی ایک خوبصورتی یہ ہے کہ ہم جب اعلان کر دیں کے فلاں دن اکٹھے ہونا ہے تو سب اپنے کام کاج چھوڑ کر اکٹھے ہوجاتے ہیں میں سمجھتا ہوں انسانی زندگی میں اس طرح کا اکٹھ بہت ضروری ہوتا ہے آپ کھتارسس کرتے ہو ،ڈیپرشن سے باہرآتے ہو سٹریس سے کنارہ کشی کرتے ہو بلکہ میں سمجھتا ہوں ہماری جسمانی ذہنی اور روحانی صحت کے لئے بھی اس طرح کے دوستوں کا گروپ بہت ممدو اور معاون ہوتا ہے۔ ایڈورڈ کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد میں گورنمنٹ کالج لاہور آگیا، یہاں میں نے تین ڈیپارٹمنٹ اکنامکس، انگلش اور پولٹیکل سائنس میں ایڈمیشن کے لئے اپلائی کیا، اس زمانے میں داخلہ ٹیسٹ ہوا کرتا تھا سیٹ آفر ہوتی تھی پولٹیکل سائنس میں میں نے ٹاپ کیا اور میں پھر پولٹیکل سائنس میں چلا گیا۔
گورنمنٹ کالج ایک انتہائی شاندار کالج ہے یہاں کا ماحول ڈسپلن استائذہ سب کچھ ہی کمال ہے اس کالج کا تو کوئی جواب ہی نہیں، سر عثمان ملک اس وقت پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے چئیر مین ہوتے تھے انہوں نے ہمیں پڑھایا ان کے علاوہ پولیٹیکل فلاسفی کے ٹیچر جاوید صاحب تھے بعد میں وہ وائس پرنسپل بھی بنے،ایکسلینٹ فیکلٹی تھی۔ ایم ائے پولیٹکل سائنس کے ساتھ ساتھ میں نے سی ایس ایس کی تیاری شروع کر دی پارٹ ون کے امتحان کے ساتھ ہی میں نے سی ایس ایس کا بھی امتحان دے دیا ان دونوں میں کوئی پندرہ بیس دن کا فرق تھا ،سی ایس ایس میں بھی میں نے سبجیکٹ وہی رکھے اللہ کے فضل سے میں پاس ہو گیا اور اس کے بعد میں نے انٹر ویو دیا اس میں بھی پاس ہو گیا یوں میں پولیس میں آگیا اور پھر لاہور سول سروس اکیڈمی میں نو ماہ کی ٹرینگ کی۔ لیکن یہاں میں ایک بات بتانا چاہتا ہون کہ یہ جو تیاری کا مرحلہ تھا یہ بہت اہم وقت تھاسخت تھا صبح اٹھنا کالج جانا اس کے بعد پڑھنا قائد اعظم لائبریری جناح باغ چلے جانا جب وہ بند ہوتی تو برٹش کونسل چلے جانا جب وہ بند ہوتی تو میں امریکن سنٹر چلا جاتا اور جب وہ رات دس بجے بند ہوتی تو پھر میری واپسی ہوسٹل میں ہوتی اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ کتنا ٹف وقت تھا ۔
اکیڈمی جائن کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے جناب انعام غنی کا کہنا تھا کہ میں کبھی کسی اکیڈمی میں نہیں گیا ہمارے جو پروفیسر تھے وہ ہم پر بہت توجہ دیتے تھے ان کی توجہ سے ایک طرف ہماری انگلش بہت اچھی ہو گئی تو دوسری جانب ہماری تیاری بھی بہت اچھی ہو گئی اور یوں دن رات محنت کر کے خود ہی تیاری کی اور ہم نے منزل پائی۔ میں اور میر ایک دوست عمر اسد اکٹھے تیاری کرتے تھے بد قسمتی سے وہ کامیاب نہ ہو سکا جب کہ میں کامیاب ہوگیا۔
جب میں فرسٹ ائیر میں تھا میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا وہ جب وہ حیات تھے’ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ کسی بھی انسان کی زندگی کے دو اہم حصے ہوتے ہیں ایک ابتدائی اور دوسرا اس کے بعد والا ، ابتدائی حصہ جو تقریباً پچیس فیصد ہوتا ہے اس میں آپ محنت کریں گے تو باقی والے حصے میں عیش کریں گے، جو بچہ اس پچیس فیصد والے حصے میں عیش کرئے اور محنت نہ کرے تو وہ باقی والے حصے میں تکلیف اٹھاتا ہے‘۔میری اپنی زندگی کا یہ تجربہ ہے جنہوں نے اپنے ابتدائی دور کو اچھے طریقے سے بھرپور محنت کے ساتھ گزارا اور کامیاب و کامرن رہے اور جنہوں نے اس وقت کا ضائع کر دیا انہوں نے اپنا مستقبل خراب کر لیا اس لئے آگے بڑھنے اور کامیابی کے لئے اپنے ابتدائی دور میںمحنت کوپنا اشعار بنالیں۔
جناب انعام غنی سے نے اپنی پہلی پوسٹنگ اور سروس میں آنے کے بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ میری پہلی پوسٹنگ پنجاب کے شہرگوجرانولہ میں ہوئی وہاں میں جناب طارق کھوصہ صاحب کے ساتھ انڈر ٹرینگ رہا وہ میرے مینٹر بھی ہیں اور بہت شفیق اور نفیس انسان بھی ان کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا اور بہت کچھ سیکھا۔ اسکے بعد میں فیصل آباد چلا گیا جہاں تقریباً اڑھائی سال رہا اس کے بعد د نواں کوٹ لاہور میں اے ایس پی رہا، یہاں سے میں یو ایس مشن میں چلا گیا وہاں کو ئی چھ سال کا عرصہ گزار کے واپس آئے تو سندھ میںآپریشن چل رہا تھا جنرل نصیر اللہ بابر اس وقت وزیر داخلہ تھے۔ میری پوسٹنگ صوبہ سندھ کے شہر شہر کراچی میں ہوگئی میرے پاس سب سے ٹف ایریا اورنگی ٹاون،پاک کالونی، منگو پیر وغیرہ تھے اور رہاش بلدیہ ٹاون میں تھی۔ یہاں میں کوئی اڑھائی سال آپریشن کا حصہ رہا بلکہ یہاں ہمارا پورا بیج جس میں طارق مسعود یاسین ،اظہر حمید کھوکھر ،محسن بٹ، صلاح الدین بھی یہیں تھے۔ پھر میری پوسٹنگ اس وقت کے صوبے سرحد جوا ب کے پی کے ہے میں ہوگئی۔
کے پی کے کے چھ اضلاح ، ہری پور ،کرک ،صوابی، چارسدہ ،مانسہرہ اور ایس ایس پی آپریشن کے طور پشاور میں فرائض سر انجام دئے ۔اس کے بعد شہر اقتدار اسلام آباد میں ایس پی ہیڈ کوراٹر، ایس ایس پی سیکورٹی اسلام آباد رہا اور وہیں سے پاکستان ایمبیسی کویت چلا گیا جہاںساڑھے تین سال بطور کونسر لیبر آتاشی فرائض سر انجام دئے دو ہزار نو میں میری واپسی ہوئی اس وقت طارق کھوسہ ڈی جی ایف آئی تھے انہوں نے مجھے کہا ایف آئی میں آجاو تو میں ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایف آئی میں چلا گیا کوئی ساڑھے سات سال ایف آئی میں دو بار ڈائریکٹر کے پی کے دو بار ڈائریکٹر اسلام آباد، ڈائریکٹر ٹی ڈی سی پی ، تین دفعہ ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن پنجاب زون رہا۔ اتنا لمبا عرصہ نوکری کرنے کے بعد میں نے چوہدری نثار اس وقت وزیر داخلہ تھے کو درخوست کی مجھے بطور انسٹر ٹکٹر سٹاف کالج لاہور بھیج دیا جائے اور یوں میں ستاف کالج لاہور آگیا جہاں گریڈ بیس والوں کی پرومشن ٹریننگ ہوتی ہے یہاں میں اڑھائی سال رہا پانچ کورسز کرائے، اس کے بعد میں انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) میں چلا گیا یہاں میں نادرن ریجن کے ہیڈ کے طور پر فرائض سر انجام دئے،دو ہزار انیس میں آئی بی چھوڑ کر پچیس سال بعد پنجاب پولیس میں آگیااور پندرہ سال بعد میں یونیفارم میں واپس آیا۔
اس زمانے اور آج کے تعلیمی معیار کے بارے پوچھے گئے سوال کے بارے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ستر کی زمانہ تھا یہ سوال میرے والد صاحب کے سامنے بھی آیا کرتا تھا کوئی کہتا کہ پرانی تعلیم اچھی ہے تو ہمارے والد صاحب ہنسا کرتے تھے کہ پرانی تعلیم کیا تھی کیونکہ پرانی تعلیم میں وہ سہولتیں نہیں تھیں جو آج میسر ہیں۔ یہی میں کہتا ہوں کہ آج تعلیم بہت بہتر ہے مقابلہ ہے سہولتیں ہیں جدت ہے اس لئے آج کا معیار تعلیم بہت اچھا بہتر اور با معنی ہے۔
آج کی تعلیم بہت آگے جا چکی ہے بے شمار سہولتیں ہیں جو ہمیں میسر نہیں تھیں جناب انعام غنی نے کامیابی کا راز بتاتے ہوئے کہا ہمارے زمانے میں جو سی ایس ایس کرتے تھے وہ دن رات محنت کرتے تھے یہی فارمولہ پوچھنے ہم میں اور میرا دوست اپنے ایک سنئیر کے پاس گئے جس نے سی ایس ایس میں ٹاپ کیا تھا، انہوں کہا بڑی سیدھی بات ہے جو اکیس گھنٹے پڑھے گا وہ تھرڈ آئے گا، جو بائیس گھنٹے پڑھتا ہے وہ سینکنڈ اور جو تئیس گھنٹے پڑھتا ہے وہ ٹاپ کرے گا ۔لیکن اب کمپٹیشن بہت زیادہ ہے اب زیادہ محنت کی ضرورت ہے ہاں اس وقت استاد کا بہر حال ایک بڑا کردار تھا وہ بچوں پر بہت زیادہ توجہ دیتے تھے بلا معاضہ بڑئے خلوص کے ساتھ پڑھاتے تھے، ہمارے ایک استاد تھے ضیا القمر صاحب جن کا زکر پہلے آچکا ہے ہم ان سے کہتے آپ بہت اچھے استاد ہیں تو وہ کہتے نہیں میں لیکچرر ہوں پروفیسر ہوں میں آتا ہوں لیکچر دے کر چلا جاتا ہوں لیکن ا ستاد وہ ہوتا ہے جو آپ کی کریکٹر بلڈنگ کرتا ہے جو آپ کی شخصیت بناتا ہے گرومنگ کرتا، ہے اب لیکچرز کی تعداد بڑھ چکی ہے استاد کم رہ گئے ہیں۔ہمارے پروفیسرز ،استاد کا ہماری کردار اور شخصیت سازی میں بڑا اہم کردار تھا وہ اصل میں رول ماڈل ہوتے تھے ہم ان کو فالو کرتے اب وہ نہیں رہے اب بچوں کے بھی رول ماڈل تبدیل ہو چکے ہیں، کیونکہ وہ پروفیسر ،استاد نہیں رہے جو اپنے شعبے کے ساتھ سنجیدہ تھے اور طلبا کو لگن اور جذبوں سے شرشار ہو کر پڑھاتے تھے اسی لئے آج شائد استاد کا احترام اور تعلیم کا وہ معیار نہیں رہا ۔لیکن اس سب باتوںکے باوجود آج کے بچے کو محنت کی بہت ضرورت ہے اب مقابلہ بہت سخت ہے جس کے لئے اکیڈیمیز ہیں جہاں بچوں کو صرف مقابلہ کرنا سکھایا جاتا ہے اس لئے جو بچے خود اپنی تعلیم اور کتاب پر توجہ دیتے ہیں وہ دیر پا کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے زمانے میںدو تین ہی شعبے ہوتے تھے جدھر زیادہ تر بچوں کا رجحان ہوتا تھا ،،فوج ،ڈاکٹر ،انجینیر یا سی ایس ایس اب تو اتنے زیادہ شعبے اور مواقع میسر ہیں کہ محنت کرنے والا بچہ پیچھے رہ ہی نہیں سکتا ، سب سے اہم بات فوکس ہونا ہے آپ جو کچھ کرنا ،بننا یا پڑھنا چاہتے ہیں اسے ہی اپنا ٹارگٹ بنائیں اور فوکسڈ ہو کر پڑھیں جو ادھر ادھر جھولتا رہتا ہے کبھی ادھر کبھی ادھر وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا کامیابی اسی کے قدم چومے گی جو اپنے مقصد میں واضع اور فوکسڈ ہوتا ہے۔ آپ کو ایک بات بتاتا ہوں جو آج کے طلبا کے لئے بھی اہم ہے کہ میرا ایک دوست عمر جو پاس نہیں ہوا تھا وہ مجھ سے معاشی لحاظ سے ہزار درجہ بہتر اس لئے ہے کہ وہ فوکسڈ تھا اس نے پرائیوٹ بزنس کیا اور انتہائی کامیاب زندگی گزار رہا ہے ۔
آخری سوال کیا آپ اپنی زندگی سے مطمن ہیں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہاں میں آج اس وقت کھڑا ہوں یہاں سے میں پیچھے مڑ کر دیکھوں تو اپنے تمام سفر سے میں بہت مطمن ہوں ایک ایسی طمانیت ہے میرے اندر جس کا شائد کوئی تصور ہی کر سکے۔ انسان کو ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔