انٹر ویو:ضمیر آفاقی
رپورٹ:ایمن ضمیر
مقررہ تاریخ تک رجسٹریشن نہ کروانے والے سکولوں کو سیل کردیا جائے گا،سی ای او ایجوکیشن لاہور پرویز اختر
نجی سکولوں کی سہولت کے لیے محکمہ سکول ایجوکیشن نے رجسٹریشن کا عمل آن لائن کر دیا ہے تاکہ انہیں دفاتر کے چکر نہ لگانے پڑیں اور وہ گھر بیٹھے اپنے سکول کو رجسٹر کرا سکیں
سکول موبائل فونز کے ذریعے بھی رجسٹریشن کروا سکتے ہیں اور اگر مزید کوئی مشکل پیش آتی ہے تو محکمہ تعلیم کی جانب سے یو ٹیوب پر ہدایتی ویڈیو بھی موجود ہے اور ہمارے دفاتر میں بھی راہنمائی کاونٹر بنائے گئے ہیں
……….
مزید سکول بنانے کے لئے فنڈز کی کمی ہے اور زمین کے حصول میں دشواری ہے،اس ضمن میں انہوں نے مخیر حضرات سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ آگے آئیں اور جن کے پاس زمین ہے وہ زمین دیں نئی بننے والی ہاوسنگ سوسائٹیز پبلک سکول کے لئے جگہ مختص کریں تو ہم وہاں پر سکول بنا سکتے ہیں اور اس طرح ہم باہم مل کر زیادہ سے زیادہ بچوں تک ان کے گھروں کے قریب تعلیم پہنچا سکتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چیف ایگزیکٹیو آفیسر ایجوکیشن لاہور پرویز اختر ایک باہمت محنتی اور باصلاحیت آفیسر ہیں جناب کئی اہم عہدوں پر خدمات سر انجام دے چکے ہیں ، آپ اس وقت لاہور میں سی ای او ایجوکیشن کے طور پر فرائض سر انجام دے رہیں ۔ ہفت روزہ” سکول لائف“ کی جانب سے چیف ایگزیکٹیو ایجوکیشن لاہور پرویز اختر کے ساتھ سکول اور ان کو در پیش مسائل کے حوالے سے ایک مختصر انٹرویو کیا گیا۔ جس کا مقصد سکولوں کے نظام کو بہتر بنانے میں حکومت کی حکمت عملی اور کاوشوں کے بارے جاننا تھا۔
سکول لائف کے سوال پر کہ نجی سکولوں کو رجسٹریشن میں مسائل کا سامنا ہے اور اس ضمن میں انہیں کچھ تحفظات ہیں تو اس حوالے سے محکمہ تعلیم کس طرح سے ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اس کے جواب میں جناب پرویز اختر کا کہنا تھا تمام وہ سکول جو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن لاہور کے ماتحت ہیں ان کا رجسٹر ڈ ہونا لازمی ہے اسی طرح ہمیں ان کے بارے پتہ چلے گا کہ لاہور میں سکولوں کی تعداد کیا ہے اور ان کے مسائل کیا ہیں جنہیں حل کرنے میں مدد ملے گی اسی حوالے سے نجی سکولوں کی سہولت کے لیے محکمہ سکول ایجوکیشن نے رجسٹریشن کا عمل آن لائن کر دیا ہے تاکہ انہیں دفاتر کے چکر نہ لگانے پڑیں اور وہ گھر بیٹھے اپنے سکول کو رجسٹر کرا سکیں، جس کی سالانہ تجدیدی فیس صرف ایک ہزار روپے ہے۔ انہوں نے رجسٹریشن کا طرقہ کار بتاتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سکول ڈیٹا فارم کے ساتھ بلڈنگ فٹنس سرٹیفیکیٹ اور ہائجین کنڈیشن کا سرٹیفیکٹ لگائیں اس طرح ایک ہفتے کے دوران ہی ان کی درخواست کو منظور کر دیا جاتا ہے ۔ مزید یہ کہ اب سکول موبائل فونز کے ذریعے بھی رجسٹریشن کروا سکتے ہیں اور اگر مزید کوئی مشکل پیش آتی ہے تو محکمہ تعلیم کی جانب سے یو ٹیوب پر ہدایتی ویڈیو بھی موجود ہے اور ہمارے دفاتر میں بھی راہنمائی کاونٹر بنائے گئے ہیں۔ سی ای او ایجوکیشن پرویز اختر کا کہنا تھا کہ ڈیڈ لائن تک رجسٹریشن نہ کروانے والے سکولوں کو سیل کردیا جائے گا،لاہور میں غیر رجسٹرڈ سکولوں کی تعداد 5900 ہے، ایجوکیشن اتھارٹی لاہور کے پاس رجسٹرڈ سکولوں کی تعداد 4200 ہے ،تمام سکول آن لائن رجسٹریشن کے نظام کے ذریعے رجسٹرڈ کیے جائیں گے، سی ای او پرویز اختر کا مزید کہنا تھا کہ رجسٹریشن کیلئے اپلائی نہ کرنے والے سکولوں کیخلاف کاروائی کی جائے گی۔
سکول لائف کی جانب سے پوچھے گئے اس سوال کہ نجی سکولوں کا ہر سال رجسٹریشن کروانا کیوں ضروری ہے۔ جس پر پرویز اختر نے کہا کہ رجسٹریشن ایک بار میں ہی ہو جائے گی مگر تجدید ہر سال کروانی پڑے گی جس کا واحد مقصد سکولوں سے متعلق معلومات اور ان کی کارکردگی کے بارے آگاہ رہنا ہے۔
ان سے پوچھا گیا کہ حکومت اور محکمہ تعلیم کووڈ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا حفاظتی اقدامات کر رہی ہے اور ویکسینیشن کو کیسے یقینی بنا رہی ہے۔ جس پر انہوں نے بتایا کہ تقریباً ننانوے فیصد اساتذہ مکمل طور پر ویکسینیٹیڈ ہو چکے ہیں جبکہ بچوں میں پہلی خوراک 94 فیصد تک اور دوسری خوراک لگ بھگ 80 فیصد تک لگ چکی ہیں۔ جس کی وجہ پہلی اور دوسری خوراک کے درمیان خاص وقفہ ہے۔ علاوہ ازیں کورونا سے بچاو¿ کے خلاف کیمپین بھی چلائی جارہی ہے۔ انھوں نے یہ یقین دہانی کروائی کہ حکومت کا سکول بند کرنے کا کوئی ارادہ نہیں سوائے اس صورت میں کہ کیسیز کی شرح حد سے تجاوز کر جائے اور صرف وہی سکول بند کئے جائیں جن میں کیسز کی تعداد زیادہ ہو اس ضمن میں سکولز کو اپنا اخلاقی اور قومی کردار ادا کرتے ہوئے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق اپنے سکول کا ماحول بنانا چاہیے تاکہ بیماری سے بچا جا سکے۔
سکول لائف کی جانب سے بچوں کی داخلہ شرح کیا ہے کے بارے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس وقت سرکاری سکولوں میں اندراج کی تعداد 6 لاکھ 60 ہزار ہے جبکہ نجی سکولوں میں اس کی تعداد 13 سے 14 لاکھ ہے۔ اور ایک سال میں 50 ہزار کے قریب اضافہ ہوا ہے۔ ان کے مطابق اگر پبلک سکولوں کی تعداد بڑھا دی جائے تو اندراج میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اسی سے متعلق ایک سوال یہ بھی اٹھایا گیا کہ کیا مستقبل میں یہ ا±مید کی جاسکتی ہے کہ سکولوں میں بچوں کی تعداد اور خصوصاً بچیوں کے لیے سکول بنائیں جائیں گے؟ کیونکہ لڑکیوں کو نقل و حمل میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ ان کے تعلیم کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، اور سکول چھوڑنے کی اہم وجہ بھی یہی ہے۔ جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مزید سکول نہ بننے کی بنیادی وجہ زمین اور فنڈز کی قلت ہے اس ضمن میں انہوں نے مخیر حضرات سے اپیل کی کہ وہ آگے آئیں اور جن کے پاس زمین ہے وہ زمین دیں نئی بننے والی ہاوسنگ سوسائٹیز پبلک سکول کے لئے جگہ مختص کریں تو ہم وہاں پر سکول بنا سکتے ہیں اور اس طرح ہم باہم مل کر زیادہ سے بچوں تک ان کے گھروں کے قریب تعلیم پہنچا سکتے ہیں ۔آخری اور اہم سوال یہ تھا کہ لاہور اور پنجاب بھر کے سکولوں کا بہترین انفراسٹرکچر ہے کھلی صاف اور شفاف عمارتیں ہیں ہر طرح کی سہولت موجود ہونے کے باوجود تعلیمی میعار کم اور خراب کیوں ہے جس جناب پرویز اختر نے کھلے دل سے اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی وجہ بتاتے ہوے کہا کہ اساتذہ کا تعلیم کے فرائض سے غفلت برتنا اور والدین کا بچوں پر توجہ نہ دینا ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ تعلیم کا وقتاً فوقتاً سکولوں کا جائزہ نہ لینا بھی شامل ہے۔ اساتذہ کی تربیت مکمل طور پر نہ ہونا بھی تعلیمی معیار کو خراب کرنے کا سبب بنتا ہے۔ جس کے لیے محکمہ تعلیم پوری کوشش کر رہا ہے کہ اساتذہ کی تربیت کو یقینی بنایا جائے۔ بہتر تعلیمی نتائج نہ آنا ملک کے لیے ایک چیلنج ہے، جس پر سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
549